نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں میں تخلیقی صلاحیت پیداکرنے کے طریقے



بچوں میں تخلیقی صلاحیت پیداکرنے کے طریقے

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

اولاد انسان کابہترین سرمایہ ہے ۔ یہ اس کی ذات کا تسلسل ہی نہیں ، اس کی امیدوں اور خواہشوں کا سب سے بڑ ا مرکز بھی ہے ۔ ہم میں سے کون ہے جو اپنی اولاد کے برے مستقبل کا تصور بھی کرسکے ۔ لیکن اولاد کا اچھا مستقبل صرف خواہشوں اور تمناؤں کے سہارے وجود پذیر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ایک واضح اور متعین لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔ان ننھے ننھے بچوں باصلاحیت اور تخلیقی ذہن فراہم کرنے کے ہم آپ سے کچھ Tips شئیر کریں گے ۔جو آپ کے لیے تربیت اولاد اور انھیں creative mindبنانے میں مددگار ثابت ہوں گیں۔آئیے ان اہم باتوں کو جانتے ہیں ۔

بچوں کو میٹرئیل  فراہم کریں: Provide Open-Ended Materials:

اپنے بچوں کو ایسا میٹرئیل فراہم کریں ۔جیسے بلاکس ،اسی طرح ایسے کھلونے جنھیں توڑ جوڑ کر بچے کوئی تخلیقی کام کرسکیں ۔انھیں میپس لاکر دیں ۔مختلف امیجز کو جوڑنے کے لیے  ٹکڑوں میں میٹرئیل لاکر دیں جنھیں وہ جوڑ کر ایک مکمل پکچر بناسکیں ایسے ہی دیگر کام بچوں کی تخلیقی صلاحیت کو پروان چڑھاسکتے ہیں ۔

تخیلاتی کھیل کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage Imaginative Play:

 بچوں کے لیے تخیلاتی کھیل میں مشغول ہونے کے مواقع پیدا کریں۔جیسے  مقدس مقامات   ،اہم تاریخی مقامات ،اہم تاریخی چیزوں کے ماڈل بنانے کے حوالے سے  کھیل ہی کھیل میں  جیسے بیٹیوں کی دلچسپی کپڑوں کی سلائی برتنوں میں ،جبکہ بیٹوں کی  تیر بنانا،بلڈنگ بنانا،جہاز بنانا وغیرہ ۔تو انھیں ایسے کھیل کھیلنے کے مواقع فراہم کریں ۔

مختلف سوچ کی حمایت کریں: Support Divergent Thinking

 بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ مسائل کے متعدد حل پیدا کریں اور مختلف نقطہ نظر کو تلاش کریں۔ صرف "درست" جواب تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرنے سے گریز کریں۔بلکہ انھیں سوچنے کے کھلے مواقع فراہم کریں۔ورنہ وہ تخلیقی سوچ سے محرومی والی سوچ میں پڑجائیں گے ۔

انہیں آرٹ سے روشناس کروائیں: Expose Them to the Arts:

 بچوں کو عجائب گھروں، آرٹ گیلریوں اور لیبز وغیرہ میں لے جائیں۔اس سے ان کے  نقطہ نظر کو وسعت آئے گی۔

کھیل کے لیے وقت فراہم کریں: Provide Time for Play:

بچوں کو کھیل کے لیے وقت دیں جہاں وہ اپنی دلچسپیوں کی پیروی کر سکیں ۔ اس سے انہیں آزادی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔جہاں وہ اپنا پوشیدہ پوٹینشل بھرپور انداز میں منواسکتے ہیں ۔

کھلے سوالات پوچھیں: Ask Open-Ended Questions:

 ہاں یا نہ میں سوال پوچھنے کے بجائے، کھلے سوالات پوچھیں جو تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، "آپ کے خیال میں کیا ہوگا اگر...؟" یا "آپ اس مسئلے کو کیسے حل کریں گے؟"اس سے بچے میں ہمہ جہت سوچنے کی صلاحیت پیداہوگی ۔

تجربہ کرنے کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage Experimentation

بچوں کو ایسے مواقع فراہم کریں جہاں وہ رسک لینا اور رسک کو ہینڈل کرنا سیکھ سکیں ۔ان کے اندر خوف ڈرختم ہو۔نئی چیزوں کو آزمانے میں آسانی محسوس کریں۔ انہیں ناکامی کے خوف کے بغیر مختلف نظریات اور طریقوں کے ساتھ تجربہ کرنے کی ترغیب دیں۔

کہانیاں پڑھیں اور سنائیں: Read and Tell Stories

 ایک ساتھ کتابیں پڑھیں اور بچوں کو اپنی کہانیاں خود بنانے کی ترغیب دیں۔ اس سے ان کی تخیل اور کہانی سنانے کی مہارت کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔

تخلیقی اظہار کے مواقع فراہم کریں: Provide            Opportunities            for     Creative    Expression

بچوں کوتلاوت ،نعت ،تقریر ،تحریر جیسے مواقع فراہم کریں ۔جہاں وہ پوری انرجی کے ساتھ اپنے فن اپنی قابلیت کا اظہار کرسکیں ۔ہربات پر روک ٹوک اور ہر مرتبہ جیت جانے کا وہم ان کے دماغ میں مت پالیں ۔بلکہ انھیں کچھ کہنے اور کرنے کے مواقع فراہم کریں ۔

تخلیقی صلاحیتوں کا جشن منائیں: Celebrate Creativity:

بچوں کی تخلیقی کوششوں اور کامیابیوں کو پہچانیں اور ان کا جشن منائیں۔ اس سے ان کے اعتماد کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے اور وہ اپنی تخلیقی دلچسپیوں کی تلاش جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے، اس لیے تخلیقی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کے لیے مختلف قسم کے تجربات اور مواقع فراہم کرنا ضروری ہے۔ہمیں امید ہے کہ یہ مضمون آپ کے لیے ایک اچھی معلومات کا ذریعہ ثابت ہوگا۔اللہ کریم ہمیں اخلاص کی دولت سے بہرہ مند فرمائے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا